انسانی سکونت و رہن سہن اور ماحول کے ہر شعبے میں بے رحمانہ تنازعات کی دنیا، از حد بدقسمتی سے، ہمارا عالم ہے۔ اس صورتِ حال کی سب سے بڑی مثال فوجوں، پولیس، عدالتوں، جیلوں اور ان سب کے متعلق بنیادی ڈھانچے، مثلاً ہتھیار، وغیرہ کی ہے، جو دنیا کی پیداوار کا ایک تہائی سے نصف حصہ ختم کر جاتے ہیں؛ اور جو باقی پر نہ صرف تسلط جمائے بیٹھے ہیں، بلکہ اسے نیست و نابود کرنے کے شدید خوف کا سرچشمہ بھی ہیں۔
ہم جنگ کے ایک نظام کے چنگل میں جکڑے ہوئے ہیں، جس سے ہمارا کوئی بچاو نہیں ہے۔
جس طرح سے ہم سے ہو سکے، ہمیں اس لڑائی میں لڑنا ہی ہو گا؛ اور موجودہ دنیا کے ان تباہ کن حالات کے خلاف لڑنے کے لئے ہم نے اپنی پوری کوشش کرنے کا انتخاب کیا ہے.
ہمارا ہتھیار ادب ہے. اور ہماری یلغار کا آغاز ان تصانیف سے ہو رہا ہے۔ جن کا سپہ سالار خلیل جبران ہے.
خلیل جبران (1883 تا 1931 عیسوی) دنیا کے کروڑوں لوگوں کا محبوب مصنف بنا، اور ہے؛ اور یہ بلاوجہ نہیں ہے۔
خلیل جبران کی تصانیف کے بہتر ادراک اور لطف اندوزی کے لئے انسانی فلسفے کے ارتقاء کی تاریخ کا تھوڑا سا جائزہ لینا ضروری ہے۔
تناسخ یا دوبارہ پیدا ہونے کا خیال یا نظریہ، قدیم ہے؛ اور یہ شاید فطرت کے عام مشاہدے سے حاصل کیا گیا ہے: دن کے بعد رات کا آنا، اور رات کے بعد دن کا؛ سورج کا غائب ہو جانا اور دوبارہ نمودار ہونا؛ موسموں کی دائری فطرت؛ درختوں اور پودوں پر برگ و بار نمودار ہونا اور موسمِ خزاں میں ان کا اتر جانا۔
مہاتما بدھ نے اپنی وفات کے وقت ناپذیرِ تسکین اپنے شاگرد ، آنند، کو تسکین دلائی تھی، ’’نہیں آنند، روتے نہیں. کیا میں نے یہ پہلے ہی تم سے نہیں کہا ہے کہ ہمارے عزیز و اقربا سے ہماری جدائی ناگزیر ہے؟ جو کچھ بھی پیدا ہو جاتا ہے، جو کچھ بھی وجود میں آ تا ہے، یا جس کی نشو و نما کی جاتی ہے، خود اس کے باطن ہی اس کی تباہی کی فطرت چھپی ہوتی ہے۔ اس کی کوئی دوسری صورتِ حال ہو ہی نہیں سکتی ہے۔‘‘
یونانی فلسفی اناکساگورس (500 تا 428 ق م) نے اعلان کیا، ’’طبیعیاتی دنیا میں، ہر ایک چیز میں ہر دوسری شے کے جزو شامل ہیں۔‘‘ مثال کے طور پر، ’’کوئی مویشی جو غذا کھاتا ہے، وہ اس کی ہڈی، بال، گوشت وغیرہ میں تبدیل ہوتا ہے؛ اس لئے لازماً اس میں پہلے ہی وہ تمام عنصر ہونے چاہئیں۔‘‘ یہاں یہ بات کہنا بھی مناسب ہو گی کہ ایتھنز کی عدالت نے اناکساگورس کے خلاف سزائے موت کا فیصلہ سنایا، کیونکہ اس نے ’’سورج ایک شعلہ فشاں چٹان ہے‘‘ کہا تھا، جو مذہب کے نظریہ کے خلاف تھا۔ تاہم اناکساگورس نے ایتھنز کو ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر خود کو بچا لیا۔
حقیقت یا غیر حقیقت کا نظریہ ترقی کے کئی مراحل سے گزرا اور مختلف وقفات کے بعد کئی معیارات تک پہنچا. اس ضمن میں یہاں ایک متعلقہ معیار قابلِ ذکر ہے جو شنکراچاریہ میں دکھائی دیتا ہے، جس (شنکراچاریہ) نے ہر کسی شے کو ایک سراب (مایا) مانا؛ وہ اس وجہ سے کیونکہ کوئی بھی چیز دائمی نہیں ہے۔ اور تصوف (صوفی مت) اور آگے بڑھا اور اس نے وحدت الوجود اور وحدت الشہود کے ساتھ ساتھ قدیم عربی تصورات برزخ (وہ مقام جہاں، بقول ان کے، ارواح زمین پر اترنے سے پہلے رہائش کرتے ہیں)، اعراف (زمین سے گزر جانے کے بعد ارواح کی رہائش گاہ) کے ساتھ ساتھ ثابتہ، اعیان و جویہ (تصوف کے اندازِ فکر میں تین روحانی مراحل) اور دیگر کئی سارے تصورات کو آگے بڑھایا۔
غور و فکر کی یہ ندی اب تک کی اپنی آخری منزل پر ہیگل کی جدلیات میں پہنچی (یعنی تغیر پزیر حقیقت—حقیقت یا غیر حقیقت کے تصورات پر بحث کی بجائے)، جس کا مظاہرہ ادب میں خلیل جبران کی تصانیف ہیں۔
جدلیات کے چار بنیادی اصولوں کا (جہاں تک میں نے انہیں سمجھا ہے) یہاں ذکر کرنا ضروری ہے۔
1) چھوٹے سے چھوٹے ذرے سے لے کر مکمل کائنات تک، ہر موجود شے کے حدود ہیں۔ دن، موسم، وقفۂ زندگی، زمانہ ہا، زمین، نظامِ شمسی، کہکشاں، مرئی و غیر مرئی کائنات٘... ہر کسی شے کے مادی اور وقتی حدود ہیں۔
2) با حدود شے لا محدود سے بنی ہے اور لا محدود با حدود سے۔ مثال کے طور پر، اعداد کی لکیر کے کسی بھی حلقے میں لامحدود نقاط ہوتے ہیں؛ اور صحرائے صحارا اور دنیا کے تمام صحراؤں کی ریت کے ذرے گنے جا سکتے ہیں۔ یہاں پر یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ لامحدود محض ایک لامحدود نہیں، لامحدود لامحدود ہیں۔ مّثلاً ایک سے دو تک جو لامحدود نقاط ہیں، اور تین سے چار تک جو لامحدود نقاط ہیں، وہ الگ الگ ہیں۔
3) تمام چیزیں (خوشی، درد، دوستی، دشمنی، زندگی، کام، شراکت، انسانی تعلقات ...) بامعنی ہیں، مگر محض اپنی سرحدوں اور حدود میں؛ ان سرحدوں کے باہر سب کچھ اپنی مطابقت اور معنی کھو دیتا ہے. یہ حدود جسمانی ہو سکتے ہیں (اگر آپ نیویارک یا کراچی میں رہتے ہیں تو آپ اپنے گھر میں شیر کے آنے کی اور آپ کے ساتھ رات کا کھانا کھانے کی توقع نہیں کر سکتے ہیں) یا وقتی ہو سکتے ہیں (آپ موسمِ گرما کے مہینوں میں موسمِ سرما کی ٹھنڈ محسوس کرنے کی توقع نہیں کر سکتے ہیں)۔
4) کسی بھی چیز کی ایک سمت میں ہو رہی مسلسل پیش قدمی ایک خاض مقام پر پہنچ کر اپنے متضاد میں تبدیل ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر، دن رات میں اور رات دن میں تبدیل ہوتے ہیں. رقابت اجارہ داری کی طرف اور اجارہ داری رقابت کی طرف گامزن ہوتی ہے۔ ’’جمہوریت‘‘ ’’آمریت ‘‘ میں اور ’’آمریت‘‘ ’’جمہوریت‘‘ میں تبدیل ہوتی ہے۔ بہار موسمِ خزاں میں بدل جاتا ہے تو اس کا برعکس بھی ہوتا ہے...
جدلیات کے مابقی اصول اور تین قوانین اس پیش لفظ کے دائرۂ کار سے الگ ہیں۔
تناسخ یا دوبارہ پیدا ہونے کا خیال یا نظریہ، پیدا شدہ ہر شے کی تنظیم و تباہی، ہر کسی چیز میں ہر دوسری شے کے جزو شامل ہونے کا نظریہ، سراب (مایا)، تصوف (صوفی مت) کے تصورات اور حسبِ بالا دئیے گئے جدلیات کے اصولوں کے بارے میں اس ابتدائی ادراک کے ساتھ، آپ اب خلیل جبران کی عظیم دانش سے اپنی رفاقت کا بھر پور لطف اٹھا سکتے ہیں۔
خلیل جبران کی مصوری کو ان، متون پر مبنی، تصانیف میں ہم نے شامل نہیں کیا، وہ محض اس لئے کہ بھارت، پاکستان اور نیپال میں کلچر کی سطح ابھی ’’شرمندگی آمیز ‘‘ ہے، گرچہ لوگ ہسپتالوں میں جاتے ہیں، نسوانی امراض کے شعبہ میں اپنا معائنہ کرواتے ہیں، جراحت کرواتے ہیں، اور پورے کپڑے اتار کر اپنے اجسام ماہرِ جراحت، ان کے شرکہ اور دیگر افراد کے سپرد کرتے ہیں، اور گرچہ مہاویر جین، للیشوری اور دوسرے لوگوں کی ایک وسیع رینج نے کوئی کپڑے نہیں پہننے، اور لوگوں نے انہیں اعلی ترین احترام سے بھی نوازا۔
قارئین میں سے کسی کو بھی اس ’’شرمندگی‘‘ سے بچانے کے لئے، ہم نے ان تصانیف میں مصوری شامل نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ جو قارئین اس مصوری کو دیکھنا جاہتے ہیں وہ